سرگوشی

سرگوشی

میں آن واحد میں اس مہذب خوشبو پر فریفتہ ہو گیا

ایسی خوشبو
جو مری حالت نفسی کو تغیر سے بچانے کی موجب بن گئی

وہ مجھے نرمی سے چھوا کرتی
اور
کبھی میرے خلاف شورش بھی بپا کرتی

مکالمہ کرتی تو اس کے ہونٹوں پر نیل پڑ جاتے

آخرکار وہ میرے اعصاب کو شعلہ زن کرنے کے لیے حد سے بڑھ گئی
گویا
وہ میرے پہلو میں اک بدلی کی طرح آ پہنچی

میں تذبذب کا شکار ہو گیا
نہیں۔۔میں بکھر نہیں سکتا

غیور مرد ایسے وحشی حملے کا آلہ کار نہیں بن سکتا

اک ہوک اٹھی
اک صدا گونجی

برستے کیوں نہیں
اس ریگ صحرا کو سیراب کیوں نہیں کرتے

میں نے سرگوشی کی
تم
اپنی کتاب حیات میں گر مجھے فرومایہ بھی رقم کر دو

تب بھی میں مردانہ فضیلت کو پامال نہیں کر سکتا

تم سے محبت کا جرم تسلیم کرتا ہوں
مگر
اس سزا کے لیے ضمیر اجازت نہیں دیتا

جب تھک جاؤ گی
اور
پلٹ کر پیچھے دیکھو گی
تو میری پاکیزہ محبت کے فضائل پر رشک کرو گی۔۔
رشک کرو گی

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *