پلمبر

پلمبر

Last part

پارٹ نمبر: 5  

تحریر دیمی ولف ( dimy wolf ) دراصل جب عظیم یہ معاملہ لے کر میرے پاس آیا تھا تو میرے مرید نے اسے بٹھائے رکھا کیونکہ میری طبیعت کچھ ناساز تھی جس کی وجہ سے میں عشاء کی نماز پڑھ کر   اپنے ہجرے میں کچھ دیر کے لیئے سو گیا تھا لیکن جب میری میری آنکھ کھلی تو میرے مرید نے مجھے بتایا کہ عظیم کب سے میرا انتظار کر رہا ہے تو پھر میں عظیم کے پاس گیا اور جب اس نے مجھے وہ خاکے دکھائے اور تمہارے ساتھ ہو رہے واقعات مزدوروں اور شاکر کی موت کے بارے میں بتایا تو میں نے پھر ان خاکوں کا حساب لگا کر دیکھا تو اس حساب سے تم لوگوں کہ پاس بچاؤ کا بہت کم وقت رہ گیا تھا کیونکہ ان خاکوں کے آہستہ آہستہ رنگ بدلنے سے ہی مجھے انداز ہو رہا تھا کہ ہم نے کافی دیر کر دی اسی لیئے میں نے عظیم سے کہا کہ مجھے ابھی اسی وقت تمہارے گھر لے کر چلے اس سے پہلے مزید کوئی خونی جنگ چھڑ جائے۔ تو عظیم مجھے یہاں لے آیا لیکن یہاں آ کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں نے واقعی بہت دیر کر دی ۔ پھر بھی ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے جسے اب مجھے روکنا ہے لیکن اس کے لیئے مجھے اس معاملے کی تہہ تک جانا ہے میں جانتا ہوں اس وقت تم باپ بیٹے پر کیا گزر رہی ہے لیکن پھر بھی کچھ پل کے لیئے اپنے آنسوؤں کو روک کر رکھو اور مجھے بتاؤ کہ وہ جو درخت تم لوگوں نے کٹوائے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کوئی بڑا بزرگ یا کوئی رشےداد وغیرہ ہے جو مجھے اس جگہ اور ان درختوں کے ماضی وغیرہ کے بارے میں کچھ بتا سکے۔۔؟؟ رفیق نے کہا ایسا تو کوئی نہیں ہے میرے والدین تھے لیکن وہ کب کے فوت ہو گئے اس کے علاوہ تو کوئی نہیں ہے جو جانتا ہو لیکن ہاں  میری ایک پھوپھی جان ہیں وہ ان کے بارے میں شاید کچھ جانتی ہونگی کیونکہ میرے والد مرحوم اور میری پھوپھی جان ان درختوں کو لے کر تقریباً ایک جیسی ہی باتیں کیا کرتے تھے لیکن اکثر ان دونوں میں اس بات پر شدید جھگڑا ہو جاتا تھا یہ سن کر حاجی بابا نے حیرت سے کہا جھگڑا۔۔۔۔ ان درختوں کو لے کر؟؟ لیکن۔۔۔ کیوں۔۔؟؟ رفیق نے کہا یہ تو میں نہیں جانتا کیونکہ اس وقت میں کافی چھوٹا تھا لیکن میری والدہ مرحوم ان دونوں کی صلح صفائی کروا دیا کرتیں تھیں۔ اور دونوں کو سمجھا بجھا کر منا لیا کرتیں تھیں۔ لیکن میرے والد نے مرنے سے پہلے وصیّت کے ساتھ مجھے ایک نصیحت بھی کی تھی کہ چاہے جو بھی ہو جائے ان درختوں کو کبھی کاٹنے کو کوشش مت کرنا اور خاص طور پر جب بھی کبھی ان درختوں میں کسی قسم کے پھل وغیرہ لگیں تو انہیں توڑنے کی کوشش مت کرنا جب تک پھل خود ٹوٹ کر زمین پر نہیں گرتے تب تک ان پھلوں کو کھانے کی لالچ میں کوئی نا تو ان درختوں پر کبھی چڑھنا اور نہ ہی انہیں توڑنے کے لیئے کوئی ڈنڈا یا پتھر وغیرہ ان درختوں پر مارنا ورنہ بہت بڑی مصیبت آ سکتی ہے ۔ تو اپنے والد کی بتائی ہوئی یہ بات میں نے اپنے بچوں کو بھی سمجھا رکھی تھی لیکن نیا گھر بنانے کی چاہ نے مجھے اتنا پاگل بنا دیا کہ میں اپنے باپ کی نصیحت کو بھی کسی کھاتے میں نہیں لایا اور سب کچھ بھوت کر اس شاکر بابا کی باتوں میں آکر ان درختوں کو کٹوا بیٹھا اسی وجہ سے یہ قیامت میرے گھر پر آگئی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق پھر سے ممتاز کی لاش کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر حاجی بابا نے رفیق کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بیٹا یہ تو تم نے واقعی میں بہت بڑی غلطی کر دی ہے لیکن پھر بھی الله پاک معاف کرنے والا ہے کیونکہ اس کی رحمت اور اپنے بندوں سے پیار  کے سامنے انسان کی ہر غلطی گناہ اور بھول کی کوئی اوکات نہیں ہے کیونکہ اس کی رحمت اور اپنے بندوں سے پیار لا محدود ہے اسی لیئے تو وہ اپنے بچوں کو حد سے زیادہ پیار کرنے والی ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے ۔ یہ سن کر رفیق نے کہا تو حاجی صاحب کیا وہ میرے باقی گھر والوں سے پیار نہیں کرتا تھا ۔۔ جو وہ لوگ اس دنیا سے چلے گئے ؟؟ یہ سن کر حاجی بابا نے کہا ارے نا سمجھ انسان  وہ اپنے ہر بندے سے پیار کرتا ہے پھر چاہے کوئی اس فانی دنیا میں ہو یاں پھر چاہے کوئی حقیقی دنیا میں ہو جو اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے وہ ہر پل انسان کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھتا ہے اور یہ کبھی مت بھولو بے شک ہم الله کی طرف سے ہی اس فانی دنیا میں آزمائش کے لیئے آئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر اس حقیقی دنیا میں جانا ہے جہاں جا کر ہمیں اس دنیا میں کیئے ہوئے اپنے اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہے لیکن پھر بھی ہم سب الله کی رحمت اور پیار کے سائے میں ہی رہیں گے اور وہ ہمیں اپنی رحمت اور پیار سے نواز کر ہمیں معاف کر کے جنت میں پہنچا دے گا پھر چاہئے کوئی کتنا بڑا بھی گناہگار کیوں نہ ہو اگر الله چاہے تو پوری کائنات کے برار بھی انسان کے گناہوں ہوں تو بھی ان کو معاف کر سکتا ہے بشرطِ انسان کو سچے دل سے الله کے سامنے جھک کر توبہ کرنی ہوگی اور آئندہ کے لیئے گناہوں سے باز رہنے کا وعدہ کرنا ہوگا تو الله اپنے بندے کو اسی وقت معاف کر دے گا۔ تم نے اپنے گھر کو بنانے کے لیئے کسی کا گھر اور خاندان اجاڑ کر گناہ کیا ہے اب تمہیں اپنے کیئے ہو اس گناہ پر الله سے معافی مانگنی ہو گی باقی ان چیزوں سے نمٹنے کے لیئے اب پہلے تمہاری پھوپھی سے بات کر کے پتا لگانا ہوگا کہ آخر وہ ان درختوں لو لے کر کس بات پر تمہارے والد صاحب سے جھگڑا کرتیں تھیں اس کے بعد ہی ہم ان چیزوں کی طاقت اور ان کے غصے کو ٹھنڈا کر کے انہیں یہاں سے بھیج سکتے ہیں۔ یہ سن کر رفیق نے کہا لیکن حاجی بابا کیا آپ میری بچی اور بیٹے کو میرے پاس نہیں لا سکتے۔۔؟؟ حاجی بابا نے کہا بیٹا جو لوگ اس دنیا میں نہیں ہے میں انہیں کیسے واپس لا سکتا ہوں۔ یہ سن کر رفیق نے پھر سے روتے ہوئے کہا تو حاجی بابا میری بیٹی اور بیٹے طارق کی لاش کہاں ہے۔۔؟؟ یہ سن کر حاجی بابا نے آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھا اور پھر رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تمہاری بیٹی کی لاش ابھی نہیں مل سکے گے البتہ بیٹے کی لاش اسی جگہ پر ہی ملے گی جس جگہ یہ سب شروع ہوا تھا کیونکہ یہ چیزیں اسی گھر میں تمہارے خاندان کا قبرستان بنانا چاہتی ہیں اس لیئے وہ لاش کو یہاں سے کہیں نہیں لے جا سکتیں۔ وہ سب یہیں ہیں ۔ ابھی حاجی بابا یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں اچانک پلمبر کی نظر ممتاز کی لاش پر پڑی تو اس نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ ممتاز کی لاش کی طرف کرتے ہوئے ڈری ہوئی آواز میں کہا ووووو۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔ دیکھیں۔۔۔؟؟ یہ سن کر سب نے ممتاز کی لاش کی طرف دیکھا تو حاجی بابا کے سوا سب کے ہوش اڑ گئے کیونکہ ممتاز خاموشی سے کھڑی ان سب کی طرف آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اتنے میں رفیق ممتاز کا نام لیتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگا تو حاجی بابا نے رفیق کا ہاتھ پکڑ کر کہا رک جاؤ۔۔۔ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے ۔۔ یہ سن کر رفیق نے حیرانی سے حاجی بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔کیا۔۔۔؟؟؟ لیکن حاجی بابا یہ تو میری بیوی ہی ہے دیکھو یہ زندہ ہے۔۔یہ سنتے ہی خالد ممتاز کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اچانک ممتاز کی شکل بھیانک ہو گئی اور وہ خالد کو دیکھ کر غرانے لگی یہ دیکھ کر حاجی بابا نے جلدی سے کچھ پڑ کر ممتاز کی طرف پھونک مار تو اچانک وہ جھٹکے سے گر گئی اس کے گرتے ہی حاجی بابا نے رفیق سے کہا اس لاش کو چارپائی پر ڈال دو۔۔ یہ سن کر رفیق نے ممتاز کی لاش کو چارپائی پر لٹا دیا پھر حاجی بابا نے رفیق سے کہا تم ایسا کرو مجھے ایک صاف چادر دو۔۔۔ ؟؟ یہ سن کر رفیق نے ایک چادر حاجی بابا کو دے دی جس پر حاجی بابا نے کچھ پڑھ کر پھونک دیا اور پھر اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی پانی کی بوتل نکال کر اس کا کچھ پانی اس چادر پر چھڑک دیا پھر وہ چادر ممتاز کی لاش پر چڑھا دی۔ پھر حاجی بابا نے ایک باریک سا دھاگہ نکالا اور اس پر کچھ پڑھا اور اس دھاگے کی ایک سائیڈ سے ممتاز کے دائیں پاؤں کا انگوٹھا باندھا اور دوسری سائیڈ سے اس دھاگے کو چارپائی کے پائے سے باندھ دیا۔ یہ دیکھ کر رفیق نے کہا حاجی بابا اس سے کیا ہو گا۔۔؟؟ حاجی بابا نے اس سے جو ابھی کچھ دیر پہلے ہوا وہ دوبارہ نہیں ہو گا  اگر ہم اسے یہاں ایسے ہی چھوڑ دیتے تو یہ دوبارہ اٹھ کر ہم پر پیچھے سے حملہ کرتی ۔ اب چلو مجھے اس جگہ پر لے چلو  جہاں درخت لگے تھے ۔ یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور حاجی بابا کے ساتھ اس گری ہوئی دیوار کے پاس آکر کھڑا ہو گیا پھر بولا حاجی بابا یہی وہ جگہ ہے اور یہ دیوار میری بیٹی نے گرائی ہے ۔ حاجی بابا نے کہا بیٹا وہ تمہاری بیٹی نہیں ہے بلکہ انہی دو چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ سن کر پلمبر نے کہا تو حاجی بابا پھر دوسری چیز کہاں ہے۔۔؟؟ حاجی بابا نے کہا وہ ابھی آئی تو تھی جس نے اس لاش میں گھسنے کی کوشش کی تھی اور اب بھی وہ ہمارے آس پاس ہی ہے یہ کہتے ہوئے حاجی بابا نے ایک اور تعویز نکال کر  پلمبر کو دیتے ہوئے کہا بیٹا عظیم تم بھی یہ تعویز اپنے گلے میں پہن لو کیونکہ اب جو کچھ ہونے والا ہے اس کی وجہ سے وہ چیزیں ہم پر حملہ آور ہو سکتی ہیں لیکن تم میں سے کسی کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی لیکن جو بھی ہو جائے تم ان کے جھانسے میں مت آجانا بس اتنا جان لو کہ اس وقت اس جگہ پر ہم تینوں کے سوا کوئی اور زندہ نہیں ہے۔ اس لیئے کوئی بھی مرا ہوا انسان تمہیں آواز دے تو اس کی طرف مت جانا۔۔۔ ورنہ وہ کسی حد تک تمہیں نقصان پہنا سکتی ہیں۔ اب اس گری ہوئی دیوار کی اینٹوں کا اٹھانے میں میری مدد کرو یہ کہتے ہوئے حاجی بابا ایک طرف سے اینٹیں اٹھا کر سائیڈ پر پھینکنے لگے ان کو ایسا کرتے دیکھ کر سب لوگ اینٹیں اٹھانے لگے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک خالد نے اپنے کمرے کہ طرف دیکھا تو اسے وہاں سونیا کھڑی ہوئی دکھائی دی۔ تو خالد نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو سونیا۔۔۔ وہ۔۔ دیکھو۔۔۔ یہ سنتے ہی رفیق نے اس طرف دیکھتے ہوئے کہا میری بچی۔۔۔ اتنے میں حاجی بابا نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھو وہ صرف تمہیں جال میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں اس طرف مت دیکھو جلدی سے اپنا کام کرو یہ اینٹیں جلدی سے ہٹاؤ یہاں سے۔ یہ سن کر سب لوگ دوبارہ اینٹیں اٹھانے لگے اور جب کچھ ہی اینٹیں باقی تھیں کہ اتنے میں اچانک رفیق کی نظر طارق پر پڑی جو کہ بالکل ان کچھ ہی قدم دور کھڑا ہو کر ان سب کو دیکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر رفیق نے کہا طارق۔۔۔۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے رفیق جلدی سے طارق کی طرف بڑھا تو اچانک حاجی بابا نے رفیق کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ارے نہ سمجھ۔۔۔ وہ طارق نہیں ہے اس کے پاؤں کی طرف دیکھ کر بھی تمہیں پتا نہیں چل رہا کیا۔۔؟؟ یہ سنتے ہی جب رفرفیق اور خالد نے اس کے پاؤں پر غور کیا تو طارق کے پاؤں کے پنجے ہی نہیں تھے یہ دیکھ کر خالد اور رفیق ڈر گئے اتنے میں حاجی بابا نے کہا تمہارا طارق یہاں ہے یہ دیکھو۔ یہ سن کر سب لوگوں نے حاجی بابا کے اشارے کے مطابق دیکھا تو اینٹوں کے نیچے سے طارق کا بازوں نظر آرہا تھا اسے دیکھتے ہی خالد اور باقی لوگوں نے جلدی جلدی وہاں سے اینٹیں ہٹائی تو ان کے نیچے سے طارق کی تشدد زدہ لاش نکلی جسے دیکھ کر خالد اور رفیق اس سے لپٹ کر پھر سے ظاروقطار رونے لگے۔ یہ دیکھ کر حاجی بابا نے کہا

( إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) اب اس کو اٹھا اور اندر کمرے میں لے چلو ابھی حاجی بابا یہ کہہ ہی رہے تھے کہ اتنے میں دوسری سائیڈ سے  سونیا اور طارق کی طرح دکھنے والی چیزیں غراتے ہوئے ان لوگوں کی طرف بڑھی تو حاجی بابا ان کے راستے میں کھڑے ہو گئے اور کچھ پڑھنے لگے تو وہ چیزیں حاجی بابا کی طرف دیکھتے ہوئے واپس پیچھے ہٹنے لگی اور پھر اچانک اندھیرے میں جاتے ہی کہیں غائب ہو گئیں اس دوران رفیق نے خالد اور پلمبر کے ساتھ مل کر طارق کی لاش کو اٹھایا اور اندر کمرے میں لے گئے جہاں ممتاز کی لاش پڑی ہوئی تھی تو طارق کی لاش پر بھی حاجی بابا نے ویسے ہی ایک چادر ڈال کر وہ سب کچھ کیا جو ممتاز کی لاش پر کیا تھا اس کے بعد حاجی بابا نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابھی کچھ ہی گھنٹوں میں فجر کی نماز کا وقت ہو جائے گا تب تک تم سب لوگ یہاں بیٹھ کر میرے ساتھ فاتحہ پڑھتے رہو لیکن اس دوران کچھ بھی ہو اس سے گھبرانا نہیں اب وہ چیزیں ہم پر حاوی ہونے کی کوشش کریں گی کیونکہ مجھے اس جگہ دیکھ کر ان کا غصہ اور بڑھ رہا ہے بس جب تک تم الله کا کلام پڑھتے رہو گے تمہیں کوئی بھی چیز کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی بس یہ کچھ گھنٹوں کی بات ہے پھر فجر کے بعد اس کی طاقت اور غصے میں کمی آجائے گی باقی سب کچھ میں بعد میں بتاؤں گا۔ پھر حاجی بابا نے ان لاشوں سے دور ایک جگہ زمین پر رفیق سے چادر بچھانے کو کہا تو رفیق نے جلدی سے وہاں چادر بچھا دی پھر حاجی بابا نے کہا اب سب لوگ میرے ساتھ یہاں بیٹھ کر فاتحہ پڑھو لیکن اس دوران کوئی بھی پیچھے مڑ کر ان لاشوں کی طرف نہیں دیکھے گا پھر چاہے وہ لاشیں چل کر تمہارے پاس ہی کیوں نہ آجائیں لیکن کوئی بھی ان کی طرف نہیں دیکھے گا اب سب لوگ یہاں بیٹھ کر  سورۃ فاتحہ پڑھتے رہو اور کسی بھی طرف توجہ مت دینا۔ یہ سن کر سب نے ہاں میں سر ہلایا اور سب فاتحہ پڑھنے لگے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کمرے کا دروازہ خودبخود ہی کھل گیا اور اچانک بہت تیز ہوا کا جھونکا پورے کمرے میں پھیل گیا جس کی وجہ سے ممتاز اور طارق کی لاش پر پڑی چادریں خودبخود اڑ کر سائیڈ پر ہٹ گئیں اور ان چادروں کے ہٹتے ہی ممتاز اور طارق اٹھ کر بیٹھ گئے اور ان سب کی طرف دیکھنے لگے جو فاتحہ پڑھنے میں مصروف تھے۔ یہ دیکھ کر جیسے ہی ممتاز اور طارق چارپائی سے اٹھنے لگے تو ان کے پاؤں کے انگوٹھوں  میں بندھے ہوئے دھاگے انہیں کسی زنجیر کی طرح نظر آنے لگے جس کی وجہ سے وہ دونوں چارپائی سے نیچے نہیں اتر پا رہے تھے اور وہ غراتے ہوئے خود کو اس دھاگے سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگے اس دوران چارپائیاں بری طرح ہلنے لگیں تو ان آوازوں کو سن کر رفیق مڑ کر انہیں دیکھنے ہی والا تھا کہ حاجی بابا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بنا بولے ہی نہ میں سر ہلایا تو رفیق پھر سے بنا اس طرف دیکھے فاتحہ پڑھنے لگا ایسا کافی دیر چلتا رہا یہاں تک کہ چارپائیاں ہلتی ہوئی اپنی جگہ سے کھسک کر ان لوگوں کے بالکل قریب آگئیں لیکن پھر کسی نے ان کی طرف نہیں دیکھا اور سب فاتحہ پڑھنے میں مصروف رہے اتنے میں اچانک کہیں دور سے ہلکی سی فجر کی اذان کی آواز سنائی دی تو اسی وقت چارپائیاں ہلنی بند ہو گئیں اور اچانک لاشوں کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ دوبارہ بے جان ہو کر چارپائیوں پر گر گئیں۔ تحریر دیمی ولف۔ ان کے گرتے ہی اچانک سب کچھ تھم گیا اور پورے کمرے میں اتنی خاموشی چھا گئی کہ اذان کی آواز صاف سنائی دینے لگی اتنے میں حاجی بابا نے دعا پڑھی اور آمین بول کر اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے چلو اب سب لوگ وضو کرو اور نماز کی تیاری کرو۔ پھر سب لوگوں نے حاجی بابا کے ساتھ صحن میں فجر کی نماز پڑھی اور مرنے والوں کی بخشش کے لیئے دعا کرنے لگے اتنے میں کمروں کے پاس سے ایک دھمک کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی سب لوگوں نے اس طرف دیکھا تو وہاں زمین پر سونیا کی لاش پڑی ہوئی تھی جو کہ شاید چھت سے نیچے زمین پر گری تھی اسے دیکھتے ہی حاجی بابا نے کہا 

( إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) اسی دوران خالد اور رفیق دوڑ کر اس کے پاس گئے اور پھر سے اسے دیکھتے ہوئے رونے دھونے لگے تو حاجی بابا نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے رفیق سے کہا بیٹا ہمارے پاس پہلے سے ہی وقت بہت کم ہے دیکھو سورج کی پہلی کرن نکل چکی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آج دن کی روشنی میں ہی یہ سب ختم ہو جائے۔ اب تم باقی دو میتوں کو بھی یہاں صحن میں لے آؤ۔ یہ سن کر رفیق نے خالد اور پلمبر کی مدد سے ساری میتوں کو ایک ساتھ صحن میں لا کر ڈال دیا پھر حاجی بابا نے رفیق سے کہا اب تم جاؤ اور اپنی پھوپھی جان کو لے آو تب تک ہم ان میتوں کی آخری رسومات کی تیاری کرتے ہیں۔ ابھی حاجی بابا یہ بات کر ہی رہے تھے کہ باہری دروازے کی گھنٹی بجی جسے سن کر پلمبر جلدی سے باہری دروازے گیا تو دیکھا کہ باہر ببی کھڑا ہوا تھا اور وہ پلمبر کو اس وقت رفیق کے گھر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا پھر پلمبر اسے اپنے ساتھ اندر لے آیا جہاں رفیق اور خالد چارپائیوں پر پڑی لاشوں کے ساتھ بیٹھ کر رو رہے تھے یہ دیکھ کر ببی حیران پریشان ہو گیا وہیں پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا پھر رفیق ببی کے سینے سے لگ کر رونے لگا اور اسے اپنے اجڑے ہوئے خاندان کے بارے میں بتانے لگا تو ببی بھی آنکھوں میں آنسوں لیئے بولا ہاں پہلوان بھائی میں بھی آپ کو یہی بتانے کے لیئے آیا تھا کہ آپ بھی پلمبر کے اسی دربار والے بابا کے پاس چلے جاؤ لیکن لگتا ہے میں نے بہت دیر کر دی۔۔ یہ کہتے ہوئے ببی بھی روتے ہوئے رفیق سے معافی مانگنے لگا تو پلمبر نے ببی کو بتایا کہ حاجی بابا اور وہ گزشتہ رات سے ہی یہاں موجود ہیں ۔ اتنے میں حاجی بابا نے رفیق سے کہا بیٹا اب بنا وقت ضائع کیئے جاؤ اور جلدی سے اپنی پھوپھی جان کو لے آؤ ۔۔ یہ سن کر رفیق نے ہاں میں سر ہلایا اور پھوپھو کو لینے چلا گیا اس دوران ببی خالد کو گلے سے لگا کر دلاسہ دے رہا تھا پھر خالد نے ببی کو گزشتہ رات ان کے ساتھ ہوئے تمام واقعات کے بارے میں بتایا جسے سن کر ببی حیران پریشان ہو گیا پھر پلمبر ببی سے حاجی بابا کے گزشتہ رات آنے یہاں آنے کے بارے میں بات کرنے لگا جبکہ اس دوران حاجی بابا کچھ لوہے کے کیلوں پر کچھ پڑھ کر انہیں ان درختوں والی جگہ کے آس پاس لگا رہے تھے انہیں ایسا کرتے دیکھ کر پلمبر نے کہا حاجی بابا یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟ حاجی بابا نے کہا میں اس جگہ کے حصے کو الگ کر رہا ہوں کیونکہ جب میں یہاں بیٹھ کر عمل کروں گا تو وہاں موجود چیزیں غصیلی ہو کر ادھر اُدھر نکلنے کی کوشش کریں گی اس لیئے میں ان چیزوں کے راستے بند کر رہا ہوں تاکہ میں ان کے ساتھ اس معاملے میں پر بات کر سکوں لیکن پھر بھی اگر وہ چیزیں نہ مانی تو پھر الله کے حکم سے میں ان پر سختی کر کے انہیں جہنم واصل کر دوں گا ۔ کیونکہ انہوں نے اپنے خاندان کے چار افراد کے بدلے میں بہت سے لوگوں کی جانیں لے لی ہیں اور بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس سے پہلے مجھے رفیق کی پھوپھو سے بات کر کے پتا لگانا ہے اس جگہ پر یہ خاندان کیسے آیا تھا۔ تاکہ کہیں جانے انجانے میں مجھ سے بھی کوئی ظلم نہ ہو جائے اسی وجہ سے میں اب تک ان چیزوں کو برداشت کر رہا ہوں ورنہ انہیں ختم کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بس میں اپنے الله سے ڈرتا ہوں جس نے مجھے یہ علم کی طاقت دی ہے جس کی وجہ سے میں ان چیزوں کو با آسانی ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں لیکن ایک دن مجھے بھی الله کے حضور  پیش ہونا ہے اور اپنے علم کی اس طاقت کا حساب دینا ہے بس میری الله سے یہی دعا ہے کہ کہ وہ مجھے شیطان کے شر سے اور اس طاقت کے غرور سے ہمیشہ محفوظ رکھے آمین۔ ابھی حاجی بابا یہ بات کر ہی رہے تھے کہ رفیق ایک بوڑھی عورت کے ساتھ واپس آیا جو کہ آتے ہی ان میتوں کو دیکھ کر رونے دھونے لگیں پھر کچھ دیر گزر جانے کہ بعد رفیق نے حاجی بابا سے کہا یہ میری پھوپھی جان ہیں اور پھر اپنی پھوپھی جان سے حاجی بابا کا تعارف کروایا تو حاجی بابا نے رفیق کی پھوپھی سے کہا محترمہ مجھے اس جگہ اور یہاں لگے ان درختوں کے بارے میں کچھ بتائیں اور آپ کا اپنے بھائی سے اس جگہ کو لے کر جھگڑا کیونکہ ہوتا تھا ۔۔؟؟ تو پھوپھی نے کہا دراصل یہ درختوں والی جگہ ہماری نہیں ہے کیونکہ یہاں ایک فقیر برادری کا خاندان رہا کرتا تھا جس میں تقریباً چھ لوگ تھے جن میں دو بزرگ ان کےدو بچے پھر آگے سے ان کے دو بچے تھے لیکن فقیر برادری کا ایک فرد( ببو ) وہ کوئی کالے جادو یا کوئی تعویز دھاگے کا کام کرتا تھا اور یہ جگہ جہاں اب ہم کھڑے ہیں یہ ہمارے دادا  کی ہے تو فقیر برادری کے میرے دادا کے ساتھ اتنے اچھے تعلقات تھے کہ کبھی بھی ان دونوں خاندانوں نے اپنے صحنوں کے درمیان میں کوئی دیوار تعمیر نہیں کروائی تھی اور ہم اکثر اس گھر کے بچوں کے ساتھ اسی صحن میں اکھٹے کھیل کود کیا کرتے تھے پھر جب میرے دادا کا آخری وقت آیا تو انہوں نے میرے والد سے کہا کہ فقیر برادری کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلاقات قائم رکھنا کیونکہ وہ شروع سے ہی بہت اچھے اور پرانے ہمسائے ہیں تو میرے دادا کی وفات کے دوسال بعد ہی اچانک ایک رات فقیر برادری کے گھر سے چیخوپکار کی آوازیں سنائی دیں تو میرے والدین نے وہاں جا کر دیکھا تو وہاں ایک زخمی بزرگ کے سوا سب لوگ مرے ہوئے پڑے تھے جن کی لاشوں کی حالت بہت ہی خراب تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی جنگلی جانور نے انہیں چیر پھاڑ دیا ہو۔ لیکن بزرگ کے کہنے کے مطابق وہ کوئی منحوس چیز تھی جس نے اس کے خاندان کو اجاڑ دیا اس وقت اس محلے میں زیادہ آبادی نہیں تھی تو کچھ تو ان کے بارے میں سن کر ہی یہاں سے محلہ چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ لوگوں نے اس بارے میں( ببو) کو قصوروار ٹھہرایا جبکہ ببو تو خود بھی مرنے والوں کی تعداد میں شامل تھا لیکن اس علاقے میں رہنے والے لوگوں نے فقیر برادری کے خاندان کو کالے جادو والوں کا خاندان کہہ کر انہیں اپنے علاقے کے قبرستان میں دفنانے کی نہیں دی تو ببو کے والد یعنی اس بزرگ نے اپنے خاندان کے تمام مرنے والوں کی قبریں اسی جگہ پر بنا دیں جہاں وہ درخت لگے ہوئے تھے اور ہر درخت کے نیچے ایک قبر ہوا کرتی تھی اور وہ بزرگ اکثر ان درختوں کے پاس بیٹھ کر خود سے باتیں کیا کرتے تھے پھر کچھ عرصہ کے بعد اس بزرگ نے ایک زرو میرے والد کو بلایا اور کہا کہ میرا بیٹا میری تو پوری نسل ہی ختم ہو چکی اور اب میرا بھی آخری وقت ہے اس لیئے یہ جگہ میں تمہیں دے رہا ہوں لیکن میرے مرنے کے بعد ان درختوں کا خیال رکھنا اور انہیں کبھی سوکھنے یا کسی کو کاٹنے میں دینا تو اسی دن کے بعد میرے والد ان درختوں کا خیال رکھا کرتے تھے وہ ان درختوں کو پانی وغیرہ ڈالا کرتے تھے اور یہاں کی صفائی ستھرائی بھی خود ہی کیا کرتے تھے پھر مہینوں کے بعد وہ بزرگ بھی فوت ہو گئے تو میرے والد نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر انہیں قبرستان میں دفنایا اور اس جگہ کو اپنے گھر کی رجسٹریشن میں شامل کروا لیا پھر کافی عرصہ کے بعد بارشوں کی وجہ سے وہ قبریں خود ہی زمین میں دھنس کر ختم ہو گئیں اور جب میرے والد کا آخری وقت آیا تو انہوں نے یہ جگہ میرے بھائی نزیر کے نام کر دی تو مجھے نزیر سے حسد ہونے لگا کیونکہ میں چاہتی تھی کہ یہ جگہ مجھے مل جائے تو اسی وجہ اکثر میرا اس جگہ کو لے کر نزیر سے جھگڑا ہو جایا کرتا تھا جبکہ نزیر مجھے یہی کہتا تھا کہ یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کی امانت ہے اور میں اس جگہ کو کسی کے حوالے نہیں کروں گا کیونکہ جو بھی اس جگہ کو حاصل کرے گا وہ ان درختوں کو کاٹ ڈالے گا اور میں اپنی زندگی میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دونگا۔۔ تو اس وجہ سے میں کئی کئی مہینوں تک اس کے گھر نہیں آتی تھی۔ لیکن دیکھو آج نزیر کی اولاد نے وہی کر دیا جو نزیر نہیں چاہتا تھا۔ اور دیکھو آج یہ گھر بھی قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ واقعی میں میرا بھائی میرے حق میں بہتر تھا ورنہ اگر یہ غلطی میں کر دیتی تو  میری اپنی اولاد کے ساتھ بھی یہی سب ہو جاتا اے الله تعالٰی مجھے معاف کر دے میں نے اپنے بھائی نزیر کا کتنا دل دکھایا تھا اس جگہ کے پیچھے ۔۔میرے الله مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔۔۔یہ کہتے ہوئے پھوپھی رونے لگی اور پھر بولی نہیں۔۔۔ نہیں۔۔ ایسی جگہ مجھے ہرگز نہیں چاہیئے۔۔۔ جو ہمارے پیاروں کو ہم سے چھین لے۔۔ یہ سن کر رفیق بھی اپنی پھوپھی سے لپٹ کر روتے ہوئے بولا مجھے معاف کر دیجئے پھوپھو میں نے بھی اپنے والد کا بہت دل دکھایا ہے اور میں نے کی نصیحت کو بھی اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔۔ یہ کہتے ہوئے رفیق ظاروقطار رونے لگا۔ یہ سب دیکھ کر حاجی بابا نے کہا رفیق کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا دیکھو جو ہوگیا ہے اب اس پر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیئے اب ہمیں آگے بڑھ کر یہ سب ختم کرنا ہوگا اور اس کے لیئے اب مجھے تمہاری ضرورت پڑے گی۔ یہ سن کر رفیق نے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا جی حاجی بابا۔۔ بتایئے۔۔۔؟؟ حاجی بابا نے کہا کچھ مزدوروں کا انتظام کرو جو کہ یہاں کھدائی کر کے ان قبروں میں سے یہاں دفن ہونے والوں تمام افراد کے باقیات نکالیں۔ یہ سن کر رفیق نے ببی سے کہا ببی بھائی آپ ذرا مزدوروں کو لے آئیں گے۔۔۔؟؟ تو ببی نے کہا جی جی پہلوان بھائی یہ کہتے ہوئے ببی وہاں سے چلا گیا پھر حاجی بابا نے رفیق سے کہا ان درختوں والی جگہ پر ایک بڑی سی چادر بچھا دو جس پر چھ سات لوگ بیٹھ سکیں ۔ یہ سن کر رفیق کمرے میں گیا پھر اس نے ایک بڑی سی چادر لا کر درختوں والی جگہ پر بچھا دی۔ تو حاجی بابا نے رفیق سے کہا بیٹا تم اپنی جگہ پر واپس چلے جاؤ اور کچھ دیر کے لیئے تم میں سے کوئی بھی اس جگہ پاؤں نہ رکھے ۔ یہ سن کر رفیق واپس اپنی پھوپھی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا پھر حاجی بابا نے اس پوری چادر پر کوئی خوشبو سی چھڑک دی اور پھر اس پر بیٹھ کر کچھ پڑھنے لگے۔ جبکہ اس دوران خالد اور پلمبر بھی رفیق اور پھوپھی کے ساتھ ایک جگہ کھڑے ہو کر حاجی بابا کو دیکھنے لگے کہ اتنے میں اچانک حاجی بابا کی چادر پر چھ لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے نظر آنے لگے جنہیں دیکھ کر رفیق کے ساتھ کھڑے باقی لوگ حیرانی سے دیکھنے لگے اتنے میں پھوپھی نے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا یہ۔۔۔یہ۔۔۔تو۔۔۔ یہ تو وہی لوگ ہیں جو یہاں رہا کرتے تھے۔۔ یہ سن کر رفیق حیرانی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ کیا یہ وہ لوگ ہیں۔۔۔ ؟؟ پھوپھی نے کہا ہاں مجھے ان کی شکلیں اچھے سے یاد ہیں ابھی رفیق پھوپھی اور باقی لوگ ان کو دیکھ ہی رہے تھے کہ حاجی بابا نے جیب سے وہ سارے خاکے نکال کر ان لوگوں کے سامنے رکھ دیئے جو حاجی بابا کے ساتھ چادر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر ان میں سے ایک بزرگ نے وہ خاکے دیکھے تو وہ بزرگ رفیق وغیرہ کی طرف غصے سے دیکھنے لگا اتنے میں حاجی بابا نے اس بزرگ سے کچھ کہا اور صحن میں پڑی لاشوں کی طرف اشارہ کیا تو وہ بزرگ واپس حاجی بابا کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا پھر کچھ دیر حاجی بابا اور ان لوگوں میں باتیں ہونے لگیں لیکن رفیق وغیرہ کو کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا کہ اتنے میں اچانک وہ سب غائب ہو گئے تو حاجی بابا نے وہ خاکے اٹھا کر چادر سے نیچے رکھ دیئے اور چادر پر بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگے ابھی وہ ان خاکوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک ان خاکوں میں آگ جلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاکے جل کر خاکستر ہو گئے۔ یہ منظر وہاں موجود سبھی لوگ دیکھ رہے تھے اتنے میں حاجی بابا نے وہاں سے  رفیق کی طرف آتے ہوئے کہا اب آپ لوگ بے فکر ہو جاؤ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا الله کے فضل سے دراصل انہیں بنا نماز جنازہ کے یہاں دفنا دیا گیا تھا تو ان لوگوں کی روحیں انہیں درختوں کے  آس پاس ہی گھومتی رہتیں تھیں لیکن شاکر نے اپنے کالے جادو کی طاقت کا استعمال کر کے درختوں کو  کاٹتے ہوئے ان روحوں کو زخمی کر کے ان کا مسکن تباہ کر ڈالا جس کی وجہ سے وہ روحیں یہاں سے دوسری جگہ چلی گئیں تھیں جبکہ دو یہیں موجود تھیں اسی وجہ سے انہوں نے بدلہ لینے کی خاطر تم سب لوگوں یہاں سے کو مٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا جیسے کہ تم اپنا نیا گھر بنانے کا بندوبست کر رہے تھے ویسے ہی وہ بھی تمہیں ختم کرنے کی حکمت عملی تیار کر چکے تھے وہ تو الله کا شکر ہے کہ اس نے  عظیم کو میرے پاس بھیج دیا ورنہ یہاں سب کچھ ہی ختم ہو جاتا۔ یہ سن کر رفیق نے کہا حاجی بابا میرا تو سب کچھ ختم ہو ہی گیا ہے۔ یہ سن کر حاجی بابا نے کہا بیٹا ناشکری نہیں کیا کرتے اب بھی تمہارے پاس تمہاری زندگی بچی ہوئی ہے اور ماشااللہ تمہارا بیٹا بھی سہی سلامت ہے اگر الله زندگی کی ایک سانس بھی زیادہ عطا فرما دے تو بھی اس کا شکر ادا کرنا کیونکہ اسی سانس میں انسان اپنی پوری زندگی کے کیئے ہوئے گناہوں کی توبہ کر سکتا ہے۔ جو بھی الله نے تمہیں عطا کیا ہے کے لیئے شکر الحمدﷲ پڑھا کرو اور اگر تمہیں محسوس ہو کہ الله نے تم سے کچھ لے لیا ہے تو اس وقت ( إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) پڑھا کرو اور اپنے حق میں بہتری کے لیئے دعا کیا کرو ۔ کیونکہ الله کے ہر کام میں بہتری اور حکمت ہوتی ہے۔ ابھی حاجی بابا یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں ببی کچھ مزدوروں کو ساتھ لے کر آگیا تو حاجی بابا نے پھوپھی کی مدد سے ہر جگہ کھدائی کروا کر ان قبروں میں سے مردوں کے باقیات نکلوائے اور انہیں الگ الگ کپڑوں میں لپیٹ دیا پھر انہیں رفیق کے گھر میں پڑی تین میتوں کے ساتھ رکھ کر ان ساروں کی ایک ساتھ نماز جنازہ پڑھائی جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شمولیت کی اس کے بعد انہیں وہیں ایک بڑے قبرستان میں پوری رسومات کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا اور ان کی مغفرت کے لیئے دعا کی گئی ۔ اس کے بعد حاجی بابا نے رفیق سے کہا بیٹا اب تم جیسے چاہو اس جگہ کو استعمال میں لا سکتے ہو کیونکہ اب یہاں کوئی روح باقی نہیں ہے وہ سب اپنی اپنی جگہ پہنچ چکے ہیں یہ سن کر رفیق نے حاجی بابا کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا حاجی بابا مجھے معاف کر دیجئے میں نے بہت بار الله کی ناشکری کی ہے اور لالچ میں اپنے مرحوم والد کو بھی بہت تکلیف دی ہے۔ یہ سن کر حاجی بابا نے رفیق کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ارے بیٹا مجھ سے معافی کیوں مانگ رہے ہو معافی مانگنی ہے تو الله سے مانگو وہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے وہی سب کچھ لینے والا ہے لیکن ہر حال میں اس کا شکر ادا کرتے رہو کیونکہ وہ رحیم و کریم  ہے اور اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والا ہے  اگر وہ اپنے بندے کو کسی آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس آزمائش سے اپنے بندے کو نکالتا بھی خود ہی ہے اور وہی معاف کرنے والا ہے بس اسی سے توقع رکھا کرو اسی پر یقین رکھا کرو۔۔ یہ کہہ کر حاجی بابا جانے لگے تو رفیق نے کہا حاجی بابا بس مجھ پر ایک احسان اور کر دیجئے۔۔۔؟؟ جس پر حاجی بابا نے کہا ارے بیٹا اس میں احسان والی کوئی بات نہیں تم بے فکر ہو کر بتاؤ کہ میں تمہارے لیئے اور کیا کر سکتا ہوں۔۔؟؟ جس پر رفیق نے کہا حاجی بابا کم سے کم مجھے آپ عمل کا ہدیہ تو ادا کرنے کا موقع دے دیجئے۔۔؟؟ اس سے مجھے خوشی ہو گی۔ یہ سن کر حاجی بابا نے کہا بیٹا کسی بھی ہدیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں ہر عمل فی سبیل اللہ کرتا ہوں اور جہاں تک تمہاری خوشی کی بات ہے تو تم پانچ وقت کی نماز پڑھ کر ان تمام مرنے والوں کے حق میں بہتری اور مغفرت کے لیئے دعا کر دیا کرنا اور اگر تم نے ایسا کیا تو مجھے تمہاری طرف سے ہدیہ مل جائے گا جو میرے لیئے کافی ہوگا یہ کہہ کر حاجی بابا مسکراتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ان کے جانے کے بعد پھر رفیق نے پلمبر کو گلے سے لگاتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے کچھ پیسے دینے چاہے تو پلمبر نے کہا ارے پہلوان جی ان پیسوں پر میرا کوئی حق نہیں ہے الله تعالٰی کا شکر ہے کہ اس کے وسیلے سے  مجھے آپ کی مدد کرنے کا موقع ملا  مجھے آپ کے گھر والوں کی وفات کا بے حد افسوس ہے لیکن دیکھو آج آپ کی فیملی کے ساتھ ان سب لوگوں کی نماز جنازہ بھی ہو گئی جن بیچاروں کو کئی سال پہلے بنا نماز جنازہ کے دفنا دیا گیا تھا اور آج آپ کی فیملی کے ساتھ انہیں بھی پوری شرعی رسومات کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ آپ کی جگہ بھی ہر قسم کی روحوں سے پاک ہو چکی ہے ۔ شاید اس میں بھی الله کی کوئی حکمت تھی لیکن ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ہی ادا کرنا چاہیئے۔ یہ کہنے کے بعد پلمبر نے رفیق اور خالد سے سلام دعا کی اور وہاں سے چلا گیا اس کے بعد رفیق نے وہاں اچھا سا ایک گھر بنا لیا اور سیٹھ جمیل نے بھی اپنا کارخانہ بنوا لیا لیکن پھر کبھی وہاں کوئی نہ خوشگوار واقع رونما نہیں ہوا ۔۔۔ 

واقع ختم۔۔۔ 

Writer: Dimy wolf

1 Comment

  1. Fahim Ansari

    the story was very good as demi wolf writes as their best. wish him good luck for his future stories as he has record.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *