نکلتی ہی نہیں

نکلتی ہی نہیں

اتنا سب لکھ کر دل کی بھڑاس نکلتی ہی نہیں
دل مر چکا کب کا میت ہے کہ مجھ سے نکلتی نہیں

میں کیوں خوابوں کے سہارے جیوں
ایک نیند ہے جسکی مجھ سے بنتی نہیں

میں تو روتا بھی مہیں تنہائی میں اب
کچھ ٹھنڈی آہیں ہیں جو مجھ سے نکلتی نہیں

ایک دیوار ہے میرے کمرے میں
وہ آخر کیوں مجھ پر گرتی نہیں

میرے سوالوں کے جواب تم دو گے؟؟؟
بتاؤ میری خوشی مجھ سے کیوں ملتی نہیں

عبدالمنیب

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *