سنتی ہے نا وہ کچھ سناتی ہے
Nature lover, close up of child hands hugging tree with copy space

سنتی ہے نا وہ کچھ سناتی ہے

سنتی ہے نا وہ کچھ سناتی ہے
یہی بات ہم دونوں کو لڑاتی ہے

کبھی نام تک نہیں لیتی میرا
کبھی مجھے چھوکر بھی چلی جاتی ہے

کوئی بات نہ کرو اس سے اور موڈ خراب ہو اس کا
آدھی جلی روٹی اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ہے

میں روٹھ جاتا ہوں اس سے اکثر بلاوجہ
بس وہ اچھی لگتی ہے جب مجھ کو مناتی ہے

دعائیں دے کر وہ مجھ کو گھر سے روانہ کرتی ہے
میں تھک کر آؤں تو شام کو مجھ کو دباتی ہے

وہ زندگی ہی نہیں کل کائنات ہے میری
وہ جب یہ سنتی ہے تو بہت شرماتی ہے

میں اس کی آغوش میں سب دکھ بھول جاتا ہوں
میں سو جاتا ہوں وہ دیر تک میرے بال سہلاتی ہے

اور وہ ایسے آتی ہے جیسے کوئی طوفان آئے
اور جاتی ہے تو آنکھوں میں برسات دے جاتی ہے

میں خواب بھی دیکھو تو صرف اس کے دیکھوں
وہ خوابوں میں بھی مجھے یہی بات بتلاتی ہے

میں کچھ اس لیے بھی کسی اور کی طرف نہیں دیکھتا اب
وہ قیامت لگتی ہے جب بن سنور کر میرے سامنے آتی ہے

عبدالمنیب

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *