ہتھوڑا گروپ ـــ سانحہ ڈھوک کھبہ راولپنڈی

ہتھوڑا گروپ ـــ سانحہ ڈھوک کھبہ راولپنڈی

1985 اگست کی 11 تاریخ راولپنڈی میں ہتھوڑا گروپ مشہور ہوا. اور اس کے بعد اس سیریل کلر کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیل گیا۔

ایک خفیہ و اندھے قتلوں کی واردات گلی نمبر 7 ڈھوک کھبہ میں ہوئی۔ جس میں ڈھوک کھبہ کے ایک ہی خاندان کے 9 افراد کو قتل کیا گیا۔ یہ گروپ 3 سال تک راولپنڈی اور پورے پاکستان میں خوف کی علامت رہا لوگوں نے گلی محلوں میں ٹھیکری پہرے شروع کر دیے تھے۔

یہ اگست کا مہینہ تھا، جب ڈھوک کبھہ میں یہ واردات ہوئی۔ میں اس وقت 7 سال کا تھا _ پورے ملک کی مانند ہمارے گاوں میں بھی چوکیدارا کمیٹی تشکیل دی گئی، اباجی کے سوا کوئی بھی اس کمیٹی میں فوجی نہیں تھا اس لئے اس کمپنی کی کمانڈ اباجی نے ہی کی۔

گاوں میں چار ڈھوکیں تھیں _ ہر ڈھوک سے 2 افراد لئے گئے اور آٹھ افراد میں سے چار افراد روزانہ رات چوکیداری پر معمور ہوتے تھے۔ جن کا کام اپنی ڈھوک کے علاوہ دوسری ڈھوک کا صبح تک چکر لگانا اور سیٹی مارنا تھا۔ اگر کہیں خطرہ ہوتا تو اس کا کام ایک فائر کرنا تھا تاکہ گاوں والے اور باقی چوکیدار متوجہ و چوکنے ہو جائیں اور خطرہ سے نبٹا جا سکے۔

گاؤں میں چوکیداری کے علاوہ بھی نوجوانوں کو متحرک کیا گیا کہ چوکنے رہیں اور اپنے اپنے علاقوں پر انجانے اور غیر لوگوں پر نظر رکھیں۔ اس دوران بہت سی کہانیاں سننے کو ملتیں۔

ایک شخص کا بیان ہے کہ چند لوگ گاوں پر مشرقی جنگل کی طرف سے حملہ آور ہوئے تھے۔ انہوں نے کالا لباس پہن رکھا تھا اور وہ سیاہ گھوڑوں پر سوار آئے تھے۔ وہ گاوں کے کنارے اس وقت موجود تھا جب یہ چند لوگ گاوں میں داخل ہونے لگے۔ اس پر اس نے جست لگا کر ان میں سے سب سے آگے والے گھر سوار کو گرایا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ گرنے کے باوجود اس شخص کے ہاتھ اس لئے نہیں آیا کیونکہ اس نے کپڑوں پر گریس یا تیل ملا ہوا تھا۔ گھڑ سوار اٹھا گھوڑے پر بیٹھا اور اس شخص کی بہادری کی وجہ سے یہ حملہ آور واپس چلے گئے۔ (لو سانبھو، یہ استاد سریلے خاں تھے)

ایک شخص کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گاوں کے جنوبی کنارے پر موجود تھا جہاں سے آگے مکمل میدان 4 کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا اور یہ میدان سرکاری اراضی جنات کی آماجگاہ گاہ تھی۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے مختلف اشکال کے پتھر اس کی غمازی کرتے تھے۔ اس نے ایک جن دیکھا جس جس کا قد 10 فٹ سے زائد تھا اور اس کے ہاتھ میں ہتھوڑا تھا۔ اس شخص نے فائر کر کے اس جن کو بھگا دیا۔ (تینوں لووے مولا، جن تے فائر، انکو کریلے گوشت بہت پسند تھے)

جتنے منہ اتنی باتیں، اصل کردار گاوں کے ان آٹھ جوانوں کا تھا جو چوکیداری کر رہے تھے اس کی وجہ سے چوری چکاری کرنے والے اوباش بھی کنارہ کشی اختیار کر گئے۔ اسی دوران ابو کو اپنی یونٹ کی طرف سے کال آ گئی اور ابو کو واپس ریزرو جانا پڑا۔

پہلا پہل ایسا ہوتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد فوجیوں کو 2 سال بعد اپنی یونٹ میں واپس 2 ماہ کے لئے جانا پڑتا تھا۔ اس کو ریزرو جانا کہتے تھے۔

ابو کے فوج جانے کے بعد حویلی میں سب سے بڑا جوان بقلم خود میں رہ گیا تھا جبکہ والدہ اور سب سے بڑی ہمشیر رات کو حویلی پر پہرہ دیتیں تھیں۔

اسی دوران راولپنڈی میں ایک اور قتل ہوا جو کلہاڑی یا ہتھوڑے کے وار سے کیا گیا۔ یہ بھی اندھا قتل تھا اور وجہ نامعلوم تھی۔ اس لئے علاقہ بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ خبروں کا واحد ذریعہ اخبارات تھے جبکہ PTV پر راوی امن لکھ رہا تھا۔ اخبارات کی مدد سے یہ بھی معلومات مل رہیں تھی کہ کراچی میں بڑے پیمانے پر ہتھوڑا گروپ متحرک ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ قتل ہو رہے ہیں۔اب اس نادیدہ گروپ کے متعلق افواہیں مشہور ہوئیں

کوئی کہتا یہ روس کے بھیجے ایجنٹ ہیں جو ہتھوڑے سے قتل کر رہے ہیں (افغانستان روس کی جنگ عروج پر تھی اور پاکستان افغانوں کو مدد فراہم کر رہا تھا)

کوئی کہتا یہ افغانی ہی ہیں جو جنگ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اس لئے یہ قتل و غارت بلا وجہ کر رہے ہیں۔

کوئی کہتا جو کروا رہا ہے انڈیا کروا رہا ہے

کوئی کہتا یہ امریکہ کی کوئی چال ہے۔

ایک رات 🌙 ہماری حویلی کے جنوب مشرقی جانب کچھ کھٹ پٹ ہوئی تو والدہ مرحومہ ابو کی ملکیت دو نالی بندوق لیکر چھت پر چلی گئیں اور حویلی کے چاروں اور نظر دوڑائی۔ جنوبی جانب چھاچھیوں کا ایک گھر تھا جبکہ اس سے آگے دو گھر کاسبیوں کے تھے۔ وہاں ہل چل ہو رہی تھی لیکن رات گہری ہونے کے سبب یہ معلوم نہ تھا کہ انسان ہے یا جانور۔ جیسے کوئی سرگوشیوں میں بات کر رہا ہو۔ ماں جی نے چوبارے کی فصیل کے سوراخ میں بندوق اس جانب لوڈ کر کے للکارا کہ کون ہے بولے اپنا تعارف دے ورنہ گولی چلا دی جائے گی۔ للکارنے پر چند ساعت خاموشی ہوئی پھر سرگوشیاں ابھرنے لگیں۔ امی جان تھوڑی حیران ہوئیں کہ للکارنے کے جواب میں جو کوئی بھی تھا یا تو اسے بھاگ جانا چاہئے تھا یا خاموش ہو جانا چاہئے تھا جبکہ دو منٹ بھی خاموشی نہ رہی اور پھر سرگوشیاں۔ ماں جی نے ہوائی فائر کر دیا بجائے اس جانب فائر کرنے کے۔ جس فائر کی آواز سنتے ہیں وہاں سے کچھ جانور نکل کر مشرقی جانب میدان اور جھاڑیوں کی طرف بھاگے۔ یہ سوروں کا غول تھا جو ہمارے پڑوس میں پڑے کاسویوں کے بھوسے سے اپنا رزق کھا رہے تھے اور رات کی خاموشی میں سر سر کی آواز سرگوشی محسوس ہو رہی تھی۔ فائر کی آواز نے پورے گاون کو متوجہ کیا۔ چوکیداروں نے فوری ہماری حویلی کا رخ کیا۔ ہمارے پڑوس کا میدان و جھاڑیاں ہمارے چھت کے برابر تھیں اور پڑوس سے ہی یہ زمیں یک مشت اتنی گہرائی میں آجاتی کہ پڑوس کی راہداری شروع ہوتی۔ دو گھر سوار اس میدان سے آتے دکھائی دیئے جو سیدھا ہی ہماری حویلی کی جانب آرہے تھے۔ شاید اندھیری رات کے فائر نے انکو سمت کا سہی تعین کر دیا تھا۔ میدان کے کنارے پہنچ کر ان لوگوں نے ٹارچ کا رخ نیچے آباد تین گھروں اور ہماری حویلی کے چھتوں پر کیا، ماں جی مرحومہ ان کی جانب فصیل کی اوڑھ میں بیٹھ گئیں اور بندوق کی نالی کا رخ ان کی جانب کر دیا۔ کیونکہ اندھیرے کی بنا پر یہ تعین کرنا ممکن نہیں تھا کہ آنے والے اپنے ہیں یا چور آچکے۔

ان میں سے ایک نے ٹارچ کی روشنی میں منڈیر کے سوراخ سے دوڑائی بندوق کا بیرل دیکھ لیا وہ فورا زمین پر لیٹ کر چلا اٹھا۔ فلاں خاں نیچے لیٹ دشمن ہے۔

مٹی کی ایک ڈھیری کی اوڑھ لیتے ہوئے اس نے اپنا نام بآواز بلند بتایا اور للکارا کہ جو کوئی بھی صوبیدار اسحاق خان کی چھت پر موجود ہے یا تو اپنا تعارف بآواز بلند کرائے بصورت دیگر اس کو گاوں سے نکلنے نہیں دیا جائیگا اور ممکنہ طور پر جاں سے مار دیا جائیگا۔ اسکا نام سن کر ماں جی نے آواز دی کہ بھائی میں تمہاری بہن ہوں اور ماں جی بیرل اٹھا کر کھڑی ہو گئیں۔ آنے والا ماں جی کا بھائی تھا۔ یہ دونوں گھوم کر جتنی دیر گیٹ پر پہنچے چار 4 لوگ اور بھی حویلی پہنچ چکے تھے۔ سب نے مل کر والدہ محترمہ سے قصہ پوچھا والدہ نے بتایا کہ فلان جانب سے سور تھے جو پہچانے نہیں گئے اس لئے ہوائی فائر کرنا پڑا۔

ڈیرہ سے نوکر بھی آ گئے جن کو ڈانٹا گیا کہ وہ حویلی کا خیال رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں اس بات کو صوبیدار صاحب تک پہنچایا جائیگا۔

دن گزرتے گئے اور کبھی کبھی خبر آتی کہ آج فلاں علاقہ میں ہتھوڑا گروپ نے حملہ کیا آج فلاں جگہ کیا _ لیکن مصدقہ خبریں اس میں کم ہی ہوتیں زیادہ تر افواہ ہی ہوتی۔ تین سال بعد ہمارے اپنے علاقہ میں فقیروں کا جوان لڑکا ہتھوڑوں کی ضرب سے ہلاک کیا گیا۔ اس رات سرخ آندھی آئی تھی __ یہ آخری واردات تھی جو میرے علم میں مصدقہ ہے۔ لیکن اس شخص کو ہتھوڑا گروپ نے قتل نہیں کیا تھا۔

پنڈی کی تاریخ کا یہ باب بھی ابھی تک حل طلب ہے کہ ہتھوڑا گروپ کون تھا کہاں تھا کیوں تھا؟؟؟؟؟

اسی دوران خبر آئی کہ پولیس نے ایک 90 سالہ شخص کو گرفتار کیا ہے جو یہیں ڈھوک کھبہ کا رہائشی ہے اسکا نام محمد خان بتایا گیااور اس نے اقرار جرم کر لیا ہے۔ لیکن یہ شخص بھی بعد ازاں 2 سال بعد رہا کر دیا گیا۔

نوٹ: گزشتہ قسط میں میں نے تاریخ 86 کی لکھی لیکن ہمارے بزرگوں اور صاحب علم لوگوں کے مطابق یہ واقعہ11 اگست 1985 مئی کا ہے۔ اس کو مئی 85ء ہی تصور کیا جائ

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *