ضرب جمال یار ہو

ضرب جمال یار ہو

ضرب جمال یار ہو
تقدس بھی نا پامال ہو

میں جو دیکھو شب بھر کی مسافتیں
تو آنکھوں میں تیرے سوال ہوں

صحراؤں سے وابستگی رہتی ہے میری
تپتی چھاؤں کا حسن کمال ہو

یہ وسوسوں کے بکھیرے ولولے
میری زات ذرہ شباب ہو

آب بھی مے لگے جام جاناں کے سامنے
ایک محفل ہو ایسی اور یہی آداب ہوں

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *