رام لعل
مشرقی اتر پردیش کے ایک چھوٹے ریلوے اسٹیشن اکبر پور پر آدھی رات کی گاڑی سے اترنے والے یوں تو کچھ مسافر اور بھی تھے لیکن ویٹنگ روم میں رات گزارنے والے ہم ہی دو تھے۔ باہر موسلا دھار بارش شروع ہو گئی تھی اور اسی کے ساتھ بجلی کی روشنی بھی چلی گئی تھی۔
لیکن ہم گھپ اندھیرے میں بھی ایک دوسرے سے ہم کلام تھے۔
شریمان جی آپ کہاں سے آئے ہیں اور آپ کو آگے کہاں تک جانا ہے؟“ جناب میں دہلی سے آرہا ہوں مجھے اسی قصبے میں کل کچھ کام ہے اور آپ؟
میں بہت دور سے آرہا ہوں لیکن یہ مت پوچھئے کہ کہاں سے۔ بس یہ بتا سکتا ہوں کہ صبح ہوتے ہی ٹیکسی سے ٹانڈہ تحصیل کے ایک گاؤں رسول پور کیلئے روانہ ہو جاؤں گا۔“ اس علاقے میں بجلی اکثر چلی جاتی ہے آج تو خیر بارش ہو رہی ہے شاید
ٹرانسفارمر ہی جل گیا ہو ۔“
کیا کہا جا سکتا ہے اس ملک میں مشینیں تو بہت بنتی ہیں مگر ان کا معیار اچھا نہیں ہوتا یورپ کے ملکوں میں تو بجلی جیسی اہم چیز شاذ و نادر ہی فیل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمسٹرڈم میں میں سال پہلے صرف ایک بار پانچ منٹ کیلئے بجلی چلی گئی اور دوسرے روز صبح کے اخباروں میں یہ بات پہلی خبر کے طور پر چھپی یہاں شاید جس روز بکلی نہیں جائے اس دن کی وہی اہم خبر ہو گی
بات تو ٹھیک ہے مگر ہمارا قومی غرور اس حد تک ضرور مطمئن ہے کہ ہم یہ ساری مشینیں خوب بنا رہے ہیں اور ایک نہ ایک دن ان کے معیار کو بھی اونچا بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ کیا آپ ہالینڈ میں رہتے ہیں؟“
اُس نے جواب دینے سے پہلے سگریٹ سلگائی اور مجھے بھی پیش کرتے ہوئے کہا انڈیا کی اس بات کی تعریف تو ہر ملک میں ہوتی رہی ہے لیکن یہاں کا معیار زندگی اور رسم و رواج اور لوگ باگ جلدی بدلنے والے نہیں ہیں کم سے کم دو صدی تک تو ہرگز نہیں ۔“
میں سگریٹ لائٹر کی روشنی میں اس کے چہرے کی بس ایک ہی جھلک دیکھ سکا۔ سانولا کلین شیو لمبوترا چہرہ اور سر کے بال کافی حد تک سفید ۔
” مجھے معلوم نہیں آپ کتنی مدت کے بعد تشریف لائے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ سارا کچھ پھر بھی نئی تبدیلیاں قبول کر رہا ہے کھیتی باڑی آمد و رفت کے ذرائع تعلیم سینما ریڈیوٹی وی اسپتال اور اپنی حکومت خود چننے کے سلسلے میں ووٹ کی اہمیت
“جی ہاں بالکل ٹھیک کہا آپ نے لیکن ان سب کی مجموعی اوسط ہے کتنی شاید پانچ فیصد سے زیادہ لوگ آزادی کے بعد سے آگے نہیں بڑھے ہیں ہو سکتا ہے میرا اندازہ ایک آدھ
فیصد غلط ہو لیکن ابھی یوروپ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے ہیں اس لئے پیچھے ہیں کہ ہم اپنے رسموں و رواجوں سے بری طرح بندھے ہوئے ہیں پیچھے کی طرف زیادہ آگے کی طرف کم دیکھتے ہیں ۔
کچھ اسی طرح کی باتیں ہمارے درمیان دو تین گھنٹے جاری رہیں جن کا ایک مقصد یقیناً وقت گزاری ہی تھا بارش تھم گئی تو مجھے اچانک گرم گرم چائے کی شدید طلب محسوس ہوئی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کوئی اسٹال نہیں تھا گاڑی کی آمد پر پلیٹ فارم پر جو چائے گرم چائے گرم کی آوازیں لگانے والے اچانک نمودار ہو جاتے ہیں وہ اسٹیشن کے احاطے سے باہر کے لوگ ہیں یہ سوچ کر کہ وہاں چائے کی کوئی دکان شاید اس وقت بھی کھلی ہو میں نے اپنا سامان اسی مسافر کے سپرد کیا اور باہر نکل گیا خوش قسمتی سے چائے کی ایک دکان کھلی تھی کوئلوں کی دیکھتی ہوئی انگیٹھی پر پانی کھول رہا تھا وہاں سے میں نے مٹی کے دو کلپر گرم گرم چائے کے بھروائے اور واپس آیا۔
لیے صاحب چائے پیئے خوش قسمتی سے مل ہی گئی۔
اس نے چائے پینے کے بعد مجھے ایک اور سگریٹ پلائی جو ر مجھے ایک اور سگریٹ پلائی جو کی ولایتی برانڈ کی تھی اس بار اس نے لاکٹر جلایا تو میں نے اس کے چہرے کو اور زیادہ غور سے دیکھا اور اس کی باتیں آنکھ کے نیچے ایک پرانے زخم کا نشان دیکھ کر حیران رہ گیا گزشتہ کئی گھنٹوں کی گفتگو کے دوران اس کی آواز نے مجھے کئی بار چونکا یا ضرور تھا لیکن یہ یاد نہیں آرہا تھا کہ اس آواز کو میں نے کب اور کس کے منہ سے سنا تھا اور پھر اسے ایک واہمہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
اب اس کے چہرے پر زخم کا نشان دیکھا تو اچانک میرے سامنے رام درشن سرا محکمہ کلیمز سیکشن کرکرا ہوگیا جو کہ ریلوے کے ایم سی میں میرا ساتھی تھاوہ کسی دوسرے محلہ سے تبدیل سیشن محکمہ ہو کر آیا تھا اور اس کا ہمارا ساتھ چار پانچ سال سے زیادہ نہیں رہا تھا اس مدت میں بس مہینے میں دو ایک بار ہیڈ کوارٹر ہونے والی میٹنگوں میں ہی ملاقات ہو جاتی تھی کیونکہ ہم لوگوں کے اقامتی ہیڈ کوارٹر الگ الگ شہروں میں تھے لیکن مجھے یاد تھا ہم ایک دوسرے سے بڑی خوش
اخلاقی سے پیش آیا کرتے تھے۔
اس آدمی کے بارے میں ایک اسکینڈل خاصا مشہور ہو گیا تھا کہ وہ شادی شدہ ہو کر بھی کسی دوسری عورت کے ساتھ عشق لڑائے ہوئے ہے اور اپنا زیادہ تر وقت اسی کے پاس گزارتا ہے دفتر میں اس کی سرکاری کارکردگی کے بارے میں کئی شکایتیں موصول ہوئی تھیں جن کی بناء پر اسے کئی بار وارننگ دی گئی تھی۔
پھر ایک روز اچانک وہ غائب ہو گیا تھا۔ اپنے گھر بھی لوٹ کر نہیں گیا لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے یا تو خودکشی کر لی ہے یا پھر اس کی رکھیل نے اسے مروا دیا ہے۔
ایک لمبے عرصے کے بعد میں نے اسے پہچان لیا تو اچانک ایک خوف نے بھی مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ برستی رات کے اندھیرے میں جو شخص میرے ساتھ کچھ گھنٹوں سے ہمکلام ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہے کہیں وہ اس کا سبھوت نہ ہو۔ سنسان اسٹیشن مجھے اور بھی سنسان محسوس ہونے لگا جس کی خاموشی کو کبھی کبھی حاصلے پر بنے ہوئے رات کے اسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کے دفتر کی کنٹرول مشین پر ہونے والی مکمل سناتا تھا۔ گفتگو کو توڑ دیتی تھی یاد ہیں برآمدے میں بینچ پر لیٹے ہوئے کسی پورٹر کی کھانسی کی آواز لیکن اب
میں اس سے اس کا نام پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا کہتے ہیں کسی مردہ آدمی کی روح
جب انسانی جسم میں آکر کسی سے ملاقات کرتی ہے تو وہ اس کے دل کا پل پل کا حال بھی جان جاتی ہے۔ اس لیے وہ اس کو بھاگ نکلنے یا چیخ چلا کر کسی کو مدد کیلئے بلا لینے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ سخت خوف و ہراس کی اس کیفیت میں مجھے یہ یاد کر کے بڑی حیرانی ہوئی کہ میں اب تک اس کی باتوں سے اسے ایک غیر ملک میں آباد ہندوستانی سمجھ رہا تھا جو مج ہونے پر ٹیکسی لے کر ٹانڈہ کے ایک گاؤں کیلئے روانہ ہونے والا تھا۔
میں نے ایسے ہی خوف وہر اس سے بھر پور موقعوں پر پھنس جانے والے کچھ ایسے لوگوں کے بھی قصے سن رکھے تھے جنہوں نے بڑی جرات سے کام لے کر بدروحوں کی ایک بھی پیش نہیں چلنے دی تھی۔ ابھی پو پھٹنے میں ایک گھنٹے کی دیر تھی بارش پھر شروع ہوگئی تھی اور اسٹیشن پر بیٹی مجھ کے آنے کی کوئی امید نہیں تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے ابھی اسی اندھیرے میں اس کے پاس بیٹھنا ہوگا۔ میں نے سوچا۔۔ کیوں نہ میں بھی اپنی ہمت کو قائم رکھوں اور اس کے ساتھ سلسلہ گفتگو جاری رکھوں بھلے ہی وہ میری اندرونی کیفیت کو بھانپ چکا ہو۔
اچھا یہ بتائیے وہ عورت کون تھی جس کے ساتھ رام درشن میرا کا معاشقہ چلا تھا۔۔ پھر دونوں کا کچھ پتا ہی نہ چلا۔“
میری بات سن کر وہ آدمی چند لمحوں کیلئے خاموش سا رہ گیا۔ مجھے محسوس ہوا شاید وہ اچانک وہاں سے غائب ہو گیا ہے لیکن وہ کہیں گیا نہیں تھا۔ وہ وہیں موجود تھا لیکن اپنے معاشقے کے ذکر پر اس نے کوئی حیرانی ظاہر نہ کی سگریٹ لائٹر جلا کر مجھے غور سے دیکھنے اور پہچاننے کی بھی کوشش نہیں کی بلکہ بڑے اطمینان سے بولا۔
اصغر بھائی آپ نے پرانے زخموں کو کریدنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر سینے سب کچھ بتائے دیتا ہوں۔ رام درشن کے بارے میں جتنی باتیں مشہور تھیں وہ سب سچ تھیں مراد
آباد کے سول لائنز کے علاقے میں ایک وکیل کی بیوہ رہتی تھی جو بہت ہی خوبصورت مالدار اور جوان تھی۔ اس سے رام درشن کی ملاقات بالکل اتفاقیہ طور پر ہوگئی تھی ۱۹۵۰ء میں جس روز پارلیمنٹ نے اپنا کانسٹی ٹیوشن منظور کیا تھا اس روز دلی میں ایک بہت بڑا عوامی جلوس نکلا تھا اور ایک سڑک پر کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام ہو گیا تھا اس روز جنوری کی چھپیں تاریخ تھی۔ اس دن اتفاق سے وہ دلی میں موجود تھا لیکن جلوس میں شریک نہیں تھا اپنے ایک ذاتی کام سے تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ٹریفک میں پھنس گیا۔ دو گھنٹوں تک اس کا تانگہ ایک
قدم آگے نہ بڑھ سکا دائیں بائیں بے شمار تانگے ایک دوسرے میں اس قدر پھنے ؟ ہوئے تھے کہ سواری کے لئے اتر کرفٹ پاتھ تک پہنچنا محال ہو گیا تھا پچھلے تانگے کا ایک پہیہ اچانک ٹوٹ گیا جسے ایک ٹرک نے دبا دیا تھا۔ اس میں وہی عورت سوار تھی آنجہانی وکیل کی بیوہ چند راوتی ۔ اسے گرنے سے بچانے کیلئے رام درشن نے کسی طرح اپنے تانگے پر منتقل کر لیا وہیں سے ان کی دوستی شروع ہوئی تھی ۔
کے ان کی ملاقاتیں مراد آباد میں اکثر ہوتی تھیں ۔ مسز چندراوتی اگر وال کیلئے اس کے آنجہانی شوہر نے کافی جائیداد چھوڑی تھی لیکن چونکہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اس لیے کئی دعویدار بھی پیدا ہو گئے تھے۔ کئی ایک نے تو اسکے شوہر کی زندگی میں ہی اس کے بعض مکانوں پر قبضہ جمالیا تھا۔ چندر اگر وال چاہتی تھی کہ وہ سارے مکانات جو ایک سلسلے میں بنے ہوئے تھے واگزار ہو جائیں تو وہ وہاں ایک کمرشیل کمپلیکس بنوائے جہاں صرف مراد آبادی برتنوں -شوروم اور تجارتی مرکز قائم ہو۔۔ آزادی کے بعد مراد آبادی برتنوں کی مانگ قومی و بین الاقوامی سطحوں پر کافی بڑھ گئی تھی وہ ایک بڑے تجارتی مرکز کی مالکن بن کر برتنوں کے تاجروں اور ٹریڈنگ کا ۔ پوریشن کے درمیان رابطے کی ایک اہم شخصیت ہو جاتی لیکن جائیداد کے جھگڑوں نے اسے خاصی پریشانی میں مبتلا کر دیا گیا جس سے نجات پانے کیلئے اس نے دیوانی عدالتوں میں مقد مے دائر کر رکھے تھے اس کام کی پیروی کیلئے اسے ایک قابل اعتماد دوست کی ضرورت تھی اتفاق سے اسے رام درشن میرا کی شکل میں ایک ایسا شخص میسر آگیا جو ریلوے کے محکمہ میں ایک معمولی پوسٹ پر ملازم تھا لیکن ایل ایل بی کا امتحان پاس کر چکا تھا۔
رام درشن سرکاری ملازمت کے سلسلے میں چونکہ اکثر دورے پر رہتا تھا اور اس کا علاقہ بھی مراد آباد اور اسکے آس پاس کا تھا اس لئے وہ وقت نکال کر بڑی آسانی سے چند راوتی کے پاس پہنچ جاتا چند راوتی کی طرح وہ بھی جوان اور شکیل تھا دونوں کی رفاقت رفتہ رفتہ گہری محبت میں تبدیل ہوگئی لیکن اگر وال آنجہانی کے بھائیوں بھتیجوں کی نظروں میں وہ کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا یوں بھی عشق اور مشک چھپائے چھپ نہیں سکتے اور ان کے بارے میں کئی قصے لوگوں کی زبان پر آگئے ۔
اس بات کی بھنک رام درشن کی بیوی کو بھی مل گئی جو گاؤں میں رہتی تھی ۔ رام درشن نے چونکہ اپنے گاؤں میں آنا جانا کافی کم کر دیا تھا۔ اس بات سے برہم ہو کر ایک روز اس کی
بیوی مراد آباد پہنچ گئی اور چندراوتی کی کوٹھی کے سامنے بیٹھ کر رونے پیٹنے لگی اس کی آہ وزاری سے وہاں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور مقامی اخبار والوں کو خوب مرچ مسالا لگا کر اس واقعے
کے بارے میں خبریں چھا ہیں۔
رام درشن اپنی بیوی کو واپس گاؤں لے گیا وہاں جا کر اس نے اس کی خوب پٹائی کی جس سے گاؤں والے بھی اس سے ناراض ہو گئے لوگوں نے اسے بڑی شرم دلائی کہ اس کی تین تین بیٹیاں موجود ہیں جو چند سال بعد جوانی کی منزل میں قدم رکھنے والی ہیں اس لیے اسے ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے وہ بدنام ہو اور اس کی بیٹیوں کیلئے رشتہ نا تا ملنا
بھی دشوار ہو جائے۔
اس وقت تو اس نے سب لوگوں سے معافی مانگ لی اور آئندہ نیک چلن بنے رنے کا وعدہ بھی کر لیا اور کچھ عرصہ تک بڑی باقاعدگی سے اپنی بیوی اور بیٹیوں کی خبر گیری کرتا رہا لیکن اس نے چند رواتی کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کئے تھے۔ دونوں چھپ چھپ کر
ملتے تھے اور اکثر دہلی پہنچ جاتے تھے۔
ایک رات کو چندراوتی کا مراد آباد میں اس کے گھر پر قتل ہو گیا۔ قاتل اس کا ایک رشتہ دار تھا جو پکڑ لیا گیا اگر وہ نہ پکڑا جاتا تو رام درشن مرا یقینا پھنسا لیا جاتا اس واقعے کے بعد رام درشن کا دل ٹوٹ گیا وہ گھر بار چھوڑ کر غائب ہو گیا۔
وہ خاموش ہو گیا تو میں نے اس سے کہا۔۔ ”رام درشن کی کہانی اس کے غائب ہو جانے کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو جاتی کچھ باتیں او ربھی ہوئیں اگر اجازت ہو تو عرض کروں؟
جی فرمائیے۔“ دو
رام درشن نے خیر آبادی کے ایک خاندان میں چپکے چپکے اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا اور وہاں اپنے دفتر کے دو دوستوں کو ساتھ لے جا کر شگن وغیرہ بھی چڑھا دیا اور شادی کی تاریخ تک پکی کر دی مقررہ تاریخ پر وہ لوگ بس سے بارات لے کر رسول پور گاؤں پہنچے تو وہاں ان کا سواگت کرنے کیلئے کوئی موجود نہیں تھا۔ گاؤں والے بھی حیران تھے کیونکہ وہاں کسی کے یہاں شادی کی تیاری کی دھوم دھام مچی ہی نہیں تھی۔ بہت چھوٹا سا گاؤں تھا لوگ ایک دوسرے کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے بارات والوں سے پوچھا گیا۔
آپ لوگ کس کے یہاں جائیں گے؟“
انہوں نے جواب دیا ۔ رام درشن مراجی کے یہاں ۔“
یہ سن کر وہ اور بھی حیران ہوئے ۔ ان کو ساتھ لے کر رام درشن کے گھر پہنچے لیکن رام درشن تو کافی دنوں سے غائب تھا اس کی بیوی تک کو اپنی بیٹی کے رشتے کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی اچانک بارات کی آمد کی خبر سن کر وہ رونے پیٹنے بیٹھ گئی۔ ادھر بارات والے سخت برہم تھے۔ ”ہمارے ساتھ مذاق کیا گیا ہے ؟ ہماری بڑی ذلت ہوئی ہے ہم خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے پولیس کو بھی بلواتے ہیں ۔“
گاؤن کے سارے بڑے بوڑھے فوراً جمع ہو گئے ۔ انہوں نے آپس میں صلاحمشورہ کر کے ہونے والے دولہا کے باپ اور ان کے ناتے داروں سے کہا پولیس کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے یہ ہمارے گاؤں کی بھی عزت کا سوال ہے یہاں ہندو اور سادات کافی تعداد میں رہتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتے ہیں جو رشتہ طے ہو چکا ہے اس کے مطابق بیاہ ضرور کیا جائے گا ۔ آپ اب ہمارے مہمان ہیں رام درشن کی بیٹی اب ہماری بیٹی ہے گاؤں والوں سے جو بن پڑے گا اس میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے آپ لوگ اپنے آدمیوں کو بلائیے۔
گاؤں کی چوپال پر آنا فانا چار پائیاں اور تخت ڈال دیئے گئے ان پر اجلے اجلے کھیں اور چادر میں بچھا دی گئیں پانی شربت اور کھانے کے انتظامات شروع ہو گئے لڑکے کے باپ نے کہا درام درشن نے ہمیں پانچ ہزار نقد اور پانچ تولے سونا اور کچھ اور سامان بھی جہیز میں دینا طے کیا تھا وہ بھی ہم لے کر جائیں گے ۔“
گاؤں کے چوہدریوں نے جواب دیا۔
وہ سب بھی مل جائے گا۔ آپ کسی بات کی چیتا نہ کریں رسول پور کی بیٹی کو ایک
مثالی شان کے ساتھ ودواع کیا جائے گا۔“
چنانچہ گاؤں میں چندہ کیا گیا آس پاس کے قصبات سے جہیز کا سارا سامان منگالیا گیا اور جب وہ بارات دلہن کو لے کر چلی تو اسکے سارے لوگ گاؤں والوں کے حسن اخلاق کی تعریفیں کر رہے تھے۔ رام درشن نے جو حرکت کی تھی اسے یکسر بھلا دیا گیا۔
جب میں اپنی بارت ختم کر چکا تو باہر تھوڑی تھوڑی روشنی پھیلنے لگی تھی ویٹنگ روم کا
اندھیرا بھی کسی حد تک دور ہو رہا تھا۔ میرے سامنے میری ہی طرح ادھیڑ عمر کا رام درشن جینز اور جیکٹ پہنے سر جھکائے بیٹھا تھا اس کا ایک بڑا سوٹ کیس اور ایک ایئر بیگ کونے میں رکھا ہوا تھا وہ بھوت وغیرہ قسم کی کوئی چیز نہیں تھی میرا سارا وہم اور ڈر دور ہو چکا تھا اپنی حماقت کو یاد دل میں
اچانک رام درشن اٹھ کھڑا ہو گیا ۔
بولا ۔۔ اصغر بھائی یہ سب میری غریبی کی وجہ سے ہوا تھا چند رواتی سے تو میں نے احساس ہوا لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔ کبھی بھی ایک پیسہ تک نہیں مانگا تھا وہ قتل کر دی گئی تو مجھے اپنی خانگی ذمہ داریوں کا پہلی بار
میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں میں نے جو حرکت کی وہ اپنے گاؤں والوں کے بھروسے پر ہی کی تھی مجھے یقین تھا وہ ضرور کچھ نہ کچھ کر دیں گے جس کی تفصیل آج پہلی بار آپ کی زبان سے سنی ہے کسی ذریعے سے ملک سے باہر جا کر میں نے کچھ دولت کمائی ہے آج میں گاؤں میں لوٹ کر پوری پنچائیت سے معافی مانگوں گا اس کا شکریہ ادا کروں گا اور ان کی پائی پائی مع سود کے ہاتھ جوڑ کر واپس کردوں گا اگر آپ میرے ساتھ وہاں چل سکیں تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجے گا۔
میں اس کے ساتھ نہیں جا سکتا تھا اسے ٹیکسی دلانے میں مدد کر دی جب وہ رسول پور کے لئے روانہ ہونے لگا تو میں نے اسے گلے لگا کر رخصت کیا۔


4.5