تنہائی میں خاموشی سے محزوز ہوتا تھا
میں جو کبھی تیرے نام پر پرنور ہوتا تھا
سمیٹ ڈالا ہے مجھے رات کی مانند تنہائی نے
میں جو کبھی دن کے اجالے کی طرح پرجوش ہوتا تھا
کھلی فضا میں دم گھٹنے لگا ہے میرا
میں گھٹن کا ناسور ہونے لگا تھا
میرے پیروکاروں نے چھوڑ ڈالا مجھے
میں ابھی ابھی تو پیرومرشد ہونے لگا تھا
تمہارا نام لینے کی اجازت چین لے گئی مجھ سے
میں تمہارے نام کے ساتھ اپنا نام لکھنے لگا تھا
کنارے یہ کہہ کر مجھے چھوڑ گئے سب کے سب
سبھی سمندروں کے تلاطم کی میں وجہ بنا تھا
چاند نے بھی منہ پھیر لیا مجھ سے
ستاروں کو بھی میں برا لگا تھا
میں کل رات بھر گھر لوٹ کر نہ آیا
سنا ہے کوئی مجھے صحرا میں ڈھونڈ رہا تھا
ان رستوں سے بخوبی واقف ہوں گے تم بھی
انہی رستوں پر کوئی تمہارے نشان چھوڑ رہا تھا
مجھے بد نام کر دیا گیا نامے محبت میں
مجھے تو تیری ذات سے عشق ہوا تھا
منیب میری عادت تو سورج جیسی تھی
ہوا کو تم میں رستے میں ملا تھا
عبدالمنیب

