وہم کے سائے دل پہ

وہم کے سائے دل پہ

وہم کے سائے دل پہ چھائے ہوئے ہیں
خواب سب جیسے دھندلائے ہوئے ہیں

ہر اک قدم پر ہے بے یقینی کا عالم
راستے خود سے گھبرائے ہوئے ہیں

حقیقتوں کا عکس ہے یا کوئی فریب
آنکھوں میں منظر لرزائے ہوئے ہیں

سوچوں کے در پہ دستک دے رہی ہے
باتیں جو دل میں دبائے ہوئے ہیں

کبھی خوشی کا گمان ہوتا ہے
دکھ بھی ساتھ مسکرائے ہوئے ہیں

وہم کا پردہ اتارے تو جانیں منیب
ہم جو خود کو چھپائے ہوئے ہیں

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *