آندھیوں کے تیور بیٹھ گئے

آندھیوں کے تیور بیٹھ گئے

آندھیوں کے تیور بیٹھ گئے
چراغ خود کو بجھا کر بیٹھ گئے

اس نے رسمنا” کہا کہ ٹھہرو زرہ
اور ہم مسکراتے بیٹھ گئے

کچھ پیڑوں پہ لکھا تھا نام تیرا
چند پرندے ان پر آ کر بیٹھ گئے

شعر سنے کا شوق انکو بھی تھا
اور ہم بھی غزلیں سنانے بیٹھ گئے

وہ منتظر تھے شیش محل کے
ہم بھی اپنی کرچیاں سجا کر بیٹھ گئے

دوبارہ کبھی نہ لوٹ کر آئے وہ سب
جو جا کر تیرے پاس بیٹھ گئے

عبدالمنیب

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *